زندگی کس کو پیاری نہیں ہوتی مگر اچھی صحت کے بغیر جینا آسان نہیں ہوتا
اور وہ جہنم جیسی لگنے لگتی ہے اور موجودہ عہد میں جو مرض انسانوں کے
لیے سب سے زیادہ مہلک ثابت ہو رہا ہے وہ ذیابیطس ہے۔
ذیابیطس وہ مرض ہے جو دیمک کی طرح خاموشی سے انسانی جسم کے اندرونی
اعضا کو چاٹ جاتا ہے اور اگر اس کے بارے میں بروقت معلوم نہ ہوسکے تو
یہ بینائی سے محرومی سے لے کر گردوں کے فیل ہونے اور دیگر لاتعداد طبی
مسائل کا سبب بنتا ہے۔
حیرت انگیز طور پر ذیابیطس ٹائپ ٹو کے بیشتر مریضوں کو اکثر بیماری کا
علم ہی نہیں ہوتا تو یہ ضروری ہے کہ بلڈ شوگر چیک اپ کرانا معمول
بنالیا جائے۔
مگر سوال یہ ہے
کہ شوگر لیول کتنا ہوتا ہے؟
ایک صحت مند فرد کا کھانے سے پہلے شوگر لیول 100 ایم جی/ڈی ایل اور
کھانے کے بعد 70 سے 140 ایم جی/ ڈی ایل سے کم ہونا چاہیے۔
اس کے مقابلے میں ذیابیطس کے آغاز یا پری ڈائیبٹیس کے شکار افراد میں
کھانے سے قبل 80 سے 130 ایم جی/ ڈی ایل اور کھانے کے بعد 180 ایم جی/
ڈی ایل ہونا چاہیے تاکہ وہ پیچیدگیوں سے بچ سکیں۔
لوگ اے 1 سی ٹیسٹ کے ذریعے 3 ماہ کے دوران اوسط بلڈ شوگر لیول کو بھی
جان سکتے ہیں، مگر یہ ٹیسٹ ڈاکٹر کے مشورے کے بعد ہی کرایا جانا چاہیے۔
ہر فرد میں دن بھر کے دوران بلڈ شوگر کی سطح میں کمی بیشی آتی ہے۔
عموماً ناشتے سے قبل بلڈ شوگر کی سطح سب سے کم ہوتی ہے جس میں کھانے کے
بعد اضافہ ہوتا ہے۔
جب تک بلڈ شوگر کی سطح جان لیوا حد تک پہنچ جائے، اس وقت تک اسے معمول
کے مطابق لانا ممکن ہوتا ہے۔
اس مقصد کے لیے چند نکات پر عملدرآمد کیا جاسکتا ہے جیسے
کاربوہائیڈریٹس کا استعمال محدود کرنا چاہیے۔
پانی کا استعمال بڑھانا چاہیے تاکہ اضافی بلڈ شوگر کو خون میں گھلایا
جاسکے جسمانی سرگرمیوں کا حصہ بننا چاہیے، جیسے کھانے کے بعد چہل قدمی
اور فائبر والی غذاؤں کا زیادہ استعمال کریں۔
یہ نکات طبی علاج کی جگہ تو نہیں لے سکتے مگر ذیابیطس کے مریضوں کے
علاج کے پلان کا مددگار حصہ ہوسکتے ہیں۔
کس عمر یا عناصر کو دیکھ کر بلڈشوگر چیک اپ عادت بنانا چاہیے؟
ہر وہ شخص جس کی عمر 40 سال سے زیادہ ہو، اسے اپنا ابتدائی بلڈ شوگر
چیک اپ کرالینا چاہیے، اگر نتیجہ نارمل آتا ہے تو ہر ایک سال بعد ایسا
کرنا چاہیے۔
اگر جسمانی وزن بہت زیادہ بڑھ جائے تو بھی ہر ایک سے 3 ماہ کے اندر بلڈ
شوگر لیول چیک اپ کرانا چاہیے جبکہ ہائی بلڈ پریشر، کولیسٹرول لیول میں
اضافہ، ہر وقت بیٹھے رہنے یا امراض قلب کی صورت میں بھی اس چیک اپ کو
عادت بنالینا چاہیے۔
اگر پری ڈائیبیٹس کی تشخیص ہوچکی ہے تو ہر سال اس چیک اپ کو عادت بنانا
چاہیے۔
دوران حمل اگر خواتین میں ذیابیطس کی تشخیص ہوتی ہے تو انہیں ہر تین
سال ذیابیطس کی اسکریننگ کرانی چاہیے۔