ورلڈ ہارٹ فیڈریشن (World Heart Federation)کے زیرِ اہتمام ہر سال
دُنیا بَھر میں29ستمبر کا دِن عالمی یومِ قلبکے طور پر مختلف
تھیمز کے ساتھ منایا جاتا ہے۔امسال جو سلوگن دیا گیا ہے،وہ"My Heart,
Your Heart"ہے۔ دِل کے امراض اور خصوصاً ہارٹ اٹیک کی وجوہ میں سرِ
فہرست بُلند فشارِ خون، غیر متوازن غذا، فربہی، جسمانی مشقّت میں کمی،
تمباکو نوشی اور الکحل کا استعمال شامل ہیں۔ اگر یہ سب کنٹرول میں
رہیں، تو امراضِ قلب سے کافی حد تک محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ایک محتاط
اندازے کے مطابق دُنیا بَھر میں دِل کی بیماریوں میں مبتلا افراد کی
تعداد17.5ملین ہے۔عالمی ادارۂ صحت نے حال ہی میں جاری کردہ ایک
رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر اسی رفتار سےامراضِ قلب کی شرح
میں اضافہ ہوتا رہا،تو یہ تعداد2030ءتک23.6ملین تک بڑھ جائے گی۔یہی
وجہ ہے کہ طبّی ماہرین، عارضۂ قلب سے متعلق معلومات، شعور و آگہی،
روک تھام اور احتیاطی تدابیر عام کرنے کی جانب خاص توجّہ دے رہے ہیں،
تاکہ ہر فرد ایک صحت مند دِل کے ساتھ بَھرپور زندگی بسر کر سکے۔سو،
عالمی یومِ قلب ہی کی مناسبت سے ہم نے بطورخاص یہ مضمون تحریر
کروایا ہے، تاکہ وہ بنیادی معلومات عام کی جاسکیں، جو دھڑکن رواں
رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
کوئی بھی عارضہ اچانک لاحق نہیں ہوتا، کوئی نہ کوئی علامت مرض کی
موجودگی سے باخبر کرتی رہتی ہے، لیکن مناسب آگہی نہ ہونے کے سبب
عموماً ان مخصوص علامات کی جانب دھیان نہیں دیا جاتا ۔زیادہ تر کیسز
میں جب مرض کی شدّت بڑھ جاتی ہے یاکوئی پیچیدگی پیداہوجائے یا پھر
کسی بھی وجہ سے مرض کی تشخیص ہو، تب ہی علاج کے لیے معالج سے رجوع
کیا جاتا ہےاور یہی تاخیراکثر جان لیوا ثابت ہوجاتی ہے۔ کئی خطرناک
عوارض ایسے ہیں، جن کی ابتدائی علامات خفیف ہوتی ہیں اورانھیں معمولی
سمجھ کر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ عارضۂ قلب کا شمار بھی ان ہی
عوارض میں کیا جاتاہے۔اعداد و شمار کے مطابق دِل کی مختلف بیماریوں
کے باعث پاکستان میں تقریباً ساڑھے تین لاکھ افراد سالانہ لقمۂ اجل
بن جاتے ہیں، جب کہ ایک تہائی بچّوں کو مستقبل میں امراضِ قلب کا
سامنا کرنا پڑ تاہے۔امراضِ قلب کی بنیادی علامات میں سینے ،خاص طور
پر بازو میں درد، سانس پھولنا، سَر چکرانا، دِل کی دھڑکنوں کا تیز
ہوناوغیرہ شامل ہیں،لہٰذا اگر کسی فرد میں یہ علامات ظاہر ہوں، تو
فوری تشخیص ناگزیر ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق خواتین میں دِل کے مرض کی
ابتدا کمر اور کندھوں کے درد سے ہوتی ہے، جب کہ مَردوں میں سینے سے
درد شروع ہوکر بائیں بازو تک پھیل جاتاہے۔نیز، خواتین کی نسبت مَردوں
میں اس درد کی شدّت زیادہ پائی جاتی ہے۔ اگر بغیر کسی وجہ کے چکر
آئیں، متلی ہو یا جسمانی مشقّت کے بعد تھکن کا احساس ہو، تو یہ اس
بات کی واضح علامت ہے کہ آپ کا دِل صحیح طرح سےاپنا کام انجام نہیں
دے رہا ۔یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ صحت مند دِل کا تعلق ،خواہ
وہ مَرد ہو یا عورت،عُمر سے ہوتا ہے، لہٰذا ہر عُمر کی مناسبت سےدِل
کا خیال رکھنا چاہیے۔اس ضمن میں کچھ اہم باتیں تومتوازن غذا کا
استعمال، باقاعدگی سے ہلکی پھلکی ورزش اور معمولاتِ زندگی ہم وار
طریقے سے انجام دینا ہیں۔نیز، دِل کی اچھی صحت کے لیے سونے،جاگنے کے
اوقات کی پابندی کے علاوہ مثبت سوچ رکھنا بھی ضروری ہے۔
عارضۂ قلب کی وجوہ میں، جنہیں رِسک فیکٹرز بھی کہتے ہیں، بُلند
فشارِ خون، ذیا بطیس، کولیسٹرول کی زیادتی، سگریٹ نوشی، ورزش کی کمی،
ذہنی و اعصابی دبائو وغیرہ شامل ہیں۔موجودہ دَور میںنامناسب طرزِ
زندگی کے باعث ایک بڑی تعداد ذیابطیس، بلڈ پریشر اور ذہنی و اعصابی
دبائو میں مبتلاہو رہی ہے اور ان میں خواتین اور مرد دونوں ہی شامل
ہیں۔اگرچہ دِل کے امراض میں بالعموم مَردوں کی تعداد خواتین کی نسبت
زائد ہی پائی جاتی ہے،لیکن اب یہ شرح خواتین میں بھی کم نہیں رہی ۔دِل
کے امراض ضروری نہیں کہ صرف بڑھاپے ہی میں ظاہر ہوں، جوان اور بچّے
بھی ان کا شکار ہو سکتے ہیں۔بعض بچّے پیدایشی طور پر عوارضِ قلب میں
مبتلا ہوتے ہیں اور یہ پیدایشی طور پر لاحق ہونے والے دِل کے امراض
دو طرح کے ہیں۔ عرفِ عام میں انھیں نیلے پن اور غیر نیلے پن سے موسوم
کیا جاتا ہے۔ نیلا پن اصل میں ایک شدید قسم کی بیماری ہے،جو طبّی
اصطلاح میںCongenital Cyanotic Heart Diseaseکہلاتی ہے۔اگرچہ ان
عوارض کا علاج ممکن تو ہے، لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں اس حوالے سے
علاج معالجے کی سہولتیں دستیاب ہی نہیں ہیں،البتہ بیرونِ مُمالک میں
پیدایش سے قبل ہی شکمِ مادر میں پلنے والے بچّے میں مرض کی تشخیص
کرکے فوری طور پر علاج بھی شروع کردیا جاتا ہے۔واضح رہے کہ یہ
بیماریاں جراثیم کی صورت حملہ آور ہوتی ہیں اوران کا ہدف پہلے گلا،
پھر دِل اور اس کے بعد پورا جسم ہوتا ہے۔ ان بیماریوں سے دِل کے والو
تنگ اور لیک ہونے کی شکایت پیداہوجاتی ہے۔
امراضِ قلب کو دُنیا بَھر میں ہونے والی اموات کی سب سے بڑی وجہ قرار
دیا جا تاہے۔ جنوبی وجنوب مشرقی ایشیا ،خصوصاً زیادہ آبادی والے
مُمالک، بشمول پاکستان میں اس شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ ایک
محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں دِل کے 40فی صد مریض آگہی کے
فقدان اور علاج معالجے کی مناسب سہولتیں فراہم نہ ہونے کی وجہ سے
انتقال کر جاتے ہیں،جب کہ دِل کے سالانہ تقریباً2لاکھ مریضوں میں
اضافہ ہورہا ہے۔اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ عوارضِ
قلب پاکستان میں وبائی صورت اختیار کرچُکے ہیں۔ اس کے باوجود علاج
معالجے کے ضمن میں عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ صوبہ ٔسندھ کا
جائزہ لیا جائے، تو مجموعی طور پر صورتِ حال انتہائی مخدوش ہے کہ
صوبے بَھر میں بنیادی سہولتیںتک ناپید ہیں۔تاہم، کراچی کےچند نجی
اسپتالوں میں عوارضِ قلب میں مبتلا مریضوں کو کچھ سہولتیںضرور میسّر
ہیں، لیکن سرکاری اسپتال صرف ایک ہی ہے۔ پھر بلوچستان کے مریض بھی
کراچی ہی کا رُخ کرتے ہیں، تو اس لحاظ سے مجموعی طور پر دستیاب
سہولتوں کا شمار کم ہی میں کیا جاتا ہے۔ صوبہ پختون خوا کی صورتِ حال
بھی کچھ خاص اچھی نہیں، صرف صوبہ پنجاب دیگر صوبوں کی نسبت بہتر ہے۔
پنجاب کے چھوٹے بڑے شہروں میں ہارٹ سینٹرز قائم ہیں،لیکن مریضوں کی
بڑھتی ہوئی تعداد کے پیشِ نظر ان سہولتوں میں بھی اضافہ اب ناگزیز
ہوچُکاہے۔
جیسا کہ موجودہ دَور میںدِل کی بیماریوں کی اہم وجہ ہمارے طرزِ زندگی
میں تبدیلی بھی ہے۔ پہلے گھر کے تمام امور خود انجام دیئے جاتے
تھے،کم فاصلے پر واقع اسکولز اور دفاتر بھی پیدل جایا جاتا تھا، گوشت
کی نسبت سبزیاں کھائی جاتی تھیں،کولڈڈرنکس کا استعمال بھی کم ہی
تھا،لیکن اب ایسا ہرگز نہیں ہے۔ یاد رکھیے، بسیار خوری، مرغّن غذائیں
اورخاص طور پر کولڈ ڈرنکس شریانوں کو شدید نقصان سے دوچار کرتی
ہیں۔ایک کولڈ ڈرنک کی بوتل میں چینی کے سات سے زائد چمچ ہوتے ہیں اور
چینی تمام بیماریوں کی جڑ ہے۔ عوارضِ قلب سے محفوظ رہنےکے لیے ہمیں
اپنا طرزِ زندگی بدلنا ہو گا ،جس کے لیے سب سے پہلے تومرغّن غذائوں
سے پرہیز کے ساتھ باقاعدہ ورزش کو زندگی کا معمول بنایا جائے۔ ماہرین
اس بات پر متّفق ہیں کہ سادہ طرز ِزندگی، باقاعدہ ورزش اور قناعت
پسندی کی عادت دِل کی بیماریوں، خصوصاً ہارٹ اٹیک سےمحفوظ رکھنے میں
معاون ہیں۔نیز،روزانہ ورزش کرنے والوں میں ڈیپریشن کی شرح بھی کم
پائی جاتی ہے۔اسی طرح حاملہ خواتین کو غیر ضروری ادویہ کے استعمال
اور آلودہ ماحول سے دُور رکھ کر بچّوں کو پیدایشی دِل کے نقائص مثلاً
دِل میں سوراخ اور والو تنگ ہونے جیسی تکالیف سے کافی حد تک بچایا
جاسکتا ہے، پھر ماحولیاتی آلودگی کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا
کہ اس وجہ سے بھی دِل کے مریضوں میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آرہا
ہے۔ صنعتی آلودگی سمیت جنگی ہتھیاروں میں استعمال ہونے والے زہریلے
مادّے بھی نسل در نسل لوگوں کو عوارضِ قلب میں مبتلا کر رہے ہیں۔
حکومت کو چاہیے کہ ان مسائل کی جانب بھی توجّہ دے، تاکہ ایک صحت مند
معاشرہ پروان چڑھ سکے۔علاوہ ازیں، عوارضِ قلب کی ایک وجہ ذہنی دبائو
بھی ہے۔ اصل میں ذہنی دبائو کی وجہ سے ہارمونز درست طریقے سے اپنا
کام نہیں کرتے اور زائد مقدار میں Adrenalineنامی مادّہ خارج کرتے
ہیں، جو دِل کی بیماری کا باعث ہے۔ اسلامی طرزِ زندگی اختیار کرکے ہم
ذہنی دبائو سے بھی خاصی حد تک چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں۔ جیسا کہ اسوۂ
رسولﷺکے مطابق گھر کے ماحول کو خوش گوار رکھیں، ایک دوسرے کو معاف
کرنا سیکھیں، برداشت کا جذبہ پیدا کریں اور اسلامی شعائر پر عمل
کریں،تو دِل کی بیماریوں سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔
تمباکو نوشی نہ صرف عوارضِ قلب کا باعث ہے، بلکہ یہ بُری علّت دماغ،
آنکھوں، پھیپھڑوں اور جِلد پر بھی مضر اثرات مرتّب کرتی ہے۔ بلاشبہ
تمباکو نوشی بذات خود بہت خطرناک ہے، لیکن اب تو حال یہ ہے کہ تمباکو
کے ساتھ کیمیکل کی ملاوٹ بھی کی جا رہی ہے۔مارکیٹ میں یہ ملاوٹ شدہ
سگریٹ عام دستیاب ہیں اور بدقسمتی سے اس جانب کسی کی بھی توجّہ نہیں
ہے۔دِل کی بیماریوں میں سب سے زیادہ خطرناک حالت ہارٹ
اٹیک(Myocardial infarction)ہے۔ یہ عموماً اُس وقت ہوتا ہے، جب
شریانوں میں رکاوٹ کے باعث خون کی روانی متاثریا بند ہوجائے اور
آکسیجن کی فراہمی کا لیول بھی گر جائے۔ ہارٹ اٹیک کی واضح علامت
سینے میں نہایت شدید درد ہے، جو مستقل جاری رہتا ہے،لیکن خواتین میں
زیادہ تریہ علامت ظاہر نہیں ہوتی،جب کہ مَردوں میں درد کمر کے اوپری
حصّے، گردن، جبڑے اور پھر بازوئوں میں پھیل جاتا ہے، ساتھ ہی چکّر
آنے لگتے ہیں اور بہت زیادہ پسینہ خارج ہوتاہے۔ اگر یہ حملہ دِل کے
بڑے حصّے یا حسّاس مقام پر ہو، تو موت واقع ہوسکتی ہے۔ اس بات کا
ہمیشہ خیال رکھیں کہ جب بھی ناف کے اوپر یا پیچھے درد محسوس ہو، اسے
ہمیشہ دِل کا درد سمجھ کر معالج سے رابطہ کریں ،اگر وہ دِل کا درد
نہیں ہے، تو پھر کسی اور طرف دھیان دیں۔ متعدد کیسز میں سینے میں درد
کی علامت ظاہر ہی نہیں ہوتی، بالخصوص ذیابطیس کے مرض میں عموماًدِل
کا خاموش دورہ پڑتاہے،جو جان لیوا ثابت ہوجاتا ہے۔دِل کے دورے کی
وجوہ میں عموماً موٹاپا، کولیسٹرول کی زیادتی، ہائی بلڈ پریشراور
ذیابطیس وغیرہ شامل ہیں۔واضح رہے کہ ایک عام فرد کی نسبت، فربہ افراد
میں ہارٹ اٹیک کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ دِل کا دورہ پڑنے کے
بعد مریض کو جس قدر جلد ممکن ہوسکے، اسپتال لے جائیں کہ اس طرح زندگی
کے امکانات بڑھ جاتے ہیں،لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ عام افراد تک
دِل کے دورے کی علامات سے متعلق آگاہی پہنچائی جائے۔وہ علامات،جو
کسی صحت مند فرد کو دِل کا دورہ پڑنے پر ظاہر ہوسکتی ہیں۔اس ضمن
میںمریض کو اسپتال لے جانے سے قبل چند ضروری تدابیربھی علاج میں
معاون ہوسکتی ہیں۔مثلاً مریض کو فوری طور پر مخصوص دوا کی دو ٹیبلٹس
دی جائیں، تو خون پتلا ہوکر شریان میں بننے والی رکاوٹ کسی حد تک کم
ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ دِل کے مریضوں کو چاہیے کہ وہ اپنےپاس ایک
کارڈضرور رکھیں، جس پر مرض سے متعلق بنیادی معلومات درج ہوں،نیز یہ
بھی کہ کس اسپتال اورکس معالج سے رابطہ کرنا ہے، تاکہ ہنگامی صورتِ
حال میں وقت ضایع کیے بغیر طبّی امداد فراہم ہوسکے۔ ایک عام فرد کو
اپنے خون کے دباؤ، وزن اور کولیسٹرول کے حوالے سے معلومات ہونی
چاہئیں،تاکہ کمی بیشی کی صورت میں بروقت قابو پایا جاسکے۔نیز،صحت مند
افراد بھی شکرجو کہ سفید زہر ہے، کم سے کم استعمال کریں، اپنا
وزن، اپنی جسامت کے مطابق رکھیںکہ جوں جوں وزن بڑھتا ہے یا کمر کے
گرد چکنائی جمع ہونے لگتی ہے، تو کئی طبّی مسائل گھیرتے چلے جاتے
ہیں۔خاص طور ذیابطیس اور بلڈ پریشر کا عارضہ جلد لاحق ہونے کے
امکانات بڑھ جاتے ہیں،جو آگے چل کر دِل کی بیماریوں کا سبب بن جاتے
ہیں۔ایک صحت مند فرد کا بلڈ پریشر 140/90سے زیادہ نہیں ہونا
چاہیے،لیکن جب بلڈ پریشر متواتر اِس خاص حد سے زائد ہو، تو اِس کا
علاج ضروری ہے۔دِل کی صحت مندی کے لیے متوازن غذا کا استعمال ضروری
ہے۔جس میں کاربوہائیڈریٹس، پروٹینز، فائبر اور نمکیات سمیت تمام
اجزاء مناسب مقدار میںموجود ہوں۔پھرروزمرّہ معمولات میں مثبت
تبدیلیوں کے ذریعے بھی دِل کی دھڑکن کو رواں رکھا جا سکتا ہے۔جن میں
سات سے آٹھ گھنٹے کی نیند بھی شامل ہے، جو دِل کو تحفّظ فراہم کرتی
ہے۔ لندن کی ایک معروف یونی ورسٹی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے
مطابق، جس فرد کا وزن زائد ہوگا، اُسے درمیانی یا بڑھاپے کی عُمر میں
دِل سے متعلق مسائل کا سامنا بھی زیادہ ہوگا، جب کہ بلڈ پریشر اور
ذیابطیس اضافی طور پرجسم کا حصّہ بن جائیں گے۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ
ہنسی دنیا کی بہترین اور مفت دوا ہے کہ ہمارا جسم ہنسنے پر تناؤ کا
سبب بننے والے ہارمون، کورٹیسول(CORTISOL)کی شرح کم کردیتا ہے۔ظاہر
سی بات ہے کہ تناؤ کم ہونے کی صورت میں بلڈ پریشر بھی نارمل رہے گا۔
نمک بیش تر غذاؤں کا لازمی جزو ہے ،مگر اس کا زائد استعمال ہائی بلڈ
پریشر،دِل کے دورے اور امراضِ قلب کا خطرہ بڑھا دیتا ہے۔ایک تحقیق سے
ثابت ہے کہ غذا میں نمک کی مقدار میں کمی کرکے امراضِ قلب میں مبتلا
ہونے کا خطرہ 40فی صد اورفالج کا 42 فی صد تک کم گھٹایاجاسکتا ہے، جب
کہ اس طرح اوسط بلڈ پریشر بھی معمول پر رہتا ہے۔سُست طرزِ زندگی بھی
امراضِ قلب کا سبب بنتا ہے،جو افراد دن کا بیش تر وقت بیٹھ کر گزارتے
ہیں، ان میں دِل کے دورے سے موت کا خطرہ 54 فی صد تک بڑھ جاتا ہے۔
(مضمون نگار،معروف ماہرِ امراضِ قلب ہیں اور لیڈی ریڈنگ اسپتال،
پشاور میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ نیز،پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی
ایشن(پیما) کے صدر بھی رہ چُکے ہیں)